Home بلاگز/کالمز اسلام کا بنیادی تصور‌ حیات

اسلام کا بنیادی تصور‌ حیات

0
اسلام کا بنیادی تصور‌ حیات

راجہ افضال سلیم عباسی
اسلام کو بڑا مشکل مذہب بنا کر پیش کیا جاتا ہے ۔کوئی اس کو سرمایہ داری کاحامی بتاتا اور کوئی اس کو قتل و غارت اور دہشت گردی کا مذہب بیان کرتا ۔اسلام صرف مذہب نہیں بلکہ ایک مکمل دین (سسٹم ) نظام حیات ہے ۔اسلام تو بڑا آسان دین ہے ۔اسلام بس سلامتی اور امان کی بات کرتا ۔اللہ ایک ہے وہ کائنات کا خالق و مالک ہے اور تمام انسانوں ،جنوں ،شجر، حشرات غرض تمام مخلوقات اللہ پاک کی تخلیق کردہ ہیں ،خالق اپنی کسی بھی تخلیق کے مابین فرق نہیں کرتے ۔نہ اس بات کی اجازت دیتے کہ کوئی مخلوق کسی دوسری مخلوق پر ظلم کرے۔انسان کو دیگر مخلوقات پر افضل قرار دیا کہ اس کو دو راستے اختیار کرنے کی اجازت دی اور جو اللہ پاک کے بتائے ہوئے راستے پر چلے گا مخلوق پر ظلم نہیں کرے گا اورظلم کرنے والوں کے لیے اپنی جدوجہد کرے گا وہ افضل ہے ۔دوسرا انسانوں میں اپنے محبوب صلی اللہ علیہ والہ وسلم کو بھی پیدا کیا۔

اللہ نے تمام انسانوں کی بنیادی ضروریات کو پورا کرنے کے لیے زمین میں خزانے رکھ دئیے کہ ان کو حاصل کرکے تمام انسانوں کی بنیادی ضروریات پوری ہوں ۔اللہ پاک کے باغی شیطان نے انسانوں کو اللہ پاک کا نافرمان بنانے کے لیے ان میں تفریق پیدا کی اور نافرمان انسانوں کے دلوں اور دماغوں میں یہ بات ڈالی کہ تمام اللہ پاک کے دئیے ہوئے خزانوں میں قبضہ کرلوں تاکہ اپنے جیسے دوسرے انسانوں کو غلا م بناسکو۔اسلام تمام انسانوں کے بنیادی ضرویات جن میں روٹی ،کپڑا ،مکان ،تعلیم ،صحت ، تفریح ، نکاح کو پورا کرنے کی بات کرتا ۔اس کے لیے ایک باقاعدہ نظام ہو جو تمام انسانوں کے بنیادی ضروریات پوری کرے ۔اگر کوئی انسان بنیادی ضروریات پوری ہونے کے بعد مزید سہولت بھی مانگے تو اس کے لیے مزید محنت کرنی ہوگی اور وہ اپنی محنت سے وہ سہولت حاصل کرسکتا مگر اپنی سہولیات کے لیے دوسروں کو استحصال نہیں کرسکتا کہ دوسرے انسان کی بنیادی ضرورت بھی پوری نہ ہورہی ہو اور وہ اپنی سہولت چاہتا ہو۔جب ایک ریاست کے اندر سب انسانوں کی بنیادی ضروریات پوری ہوجاتی ہیں تو پھر ان کو اللہ پاک جنھوں نے اس کائنات کو تخلیق کیا اس کی عبادت کرنے اور دیگر کام کرنے کا خیال آتا ۔اس وقت وہ اپنی عقل و شعور کا بہتر استعمال بھی کرسکتے ۔اب ایک شخص کی بنیادی ضروریات ہی پوری نہ ہو تو نہ تو اس کا عبادت میں دل لگتا ہے اور نہ وہ اپنے عقل و شعور اور علم سے معاشرے کی بہتری کے لیے کچھ کرسکتا بلکہ اس کی تمام تر توجہ اپنی اور اپنے گھر والوں کی بنیادی ضروریات کو پورا کرنے کی جانب رہتی ہے۔اللہ پاک نے دنیا میں تمام انسانوں کی ضرورت کے مطابق وسائل پیدا کیے ہیں اور دنیا میں جتنے بھی انسان پیدا ہوتے ہیں ۔وہ ان وسائل کو استعمال کرکے اپنی ضروریات پوری کرسکتے ہیں ۔اب اگر کوئی یہ کہے کہ وسائل کی کمی ہے تو درحقیقت وہ اللہ پاک کی نافرمانی اور شرک کا مرتکب ہوتا ہے ۔اللہ پاک نے تمام انسانوں کے لیے ان کی ضرورت کے مطابق رزق پیدا کیا اور اس کا زکر بھی وہ اپنی نازل کردہ کتابوں میں بار بار کرتے ہیں اب یہ کہنا کہ اللہ پاک نے فلاں انسان کے لیے رزق کم پیدا کیا یہ انتہائی ناانصافی اور ظلم کی بات ہے ۔رزق سب کے لیے ہے البتہ یہ اور بات ہے کہ شیطان کے پیروکار دوسرے انسانوں کے رزق پر قبضہ کرکے ان کو اس محروم کردیں تو اس کا مطلب اللہ کی جانب سے رزق کی کمی نہیں بلکہ ظالم انسانوں کے دوسرے انسانوں کے رزق پر قبضہ ہے ۔اسلام ایسے ظالم انسانوں کے خلاف جدوجہد کی بات کرتا اور جب ایسے ظالم کسی بات کو ماننے کے لیے تیار نہ ہوں اور وہ ظلم سے باز نہ آئیں تو ان کے خلاف جنگ اور قتال کا حکم ہے ۔جہاد لفظ جہد سے نکلا ہے جس کا مطلب جدوجہد اور کوشش کرنا ،جہاد کی مختلف اقسام ہیں جن میں قلم سے جہاد ،مال سے جہاد ،جان کے زریعے جہاں یعنی قتال ، جب کوئی صورت نہ نکلے اور ظالم باز نہ آئے تو پھر آخری صورت اس ظالم کو قتل کرنے کا حکم ہے مگر اس کے لیے پہلے ایک ریاست اور نظام کا قیام لازمی ہے اور ہو جہاد اس نظام اور ریاست کے تحت ہو۔یہ نہ ہو کہ انفرادی طور پر جس انسان سے کسی دوسرے انسان کو زاتی دشمنی ہو وہ اس کو قتل کردے اور سزا سے بچنے کے لیے اس کو ظالم قرار دے ۔پہلے ایک ریاست اور نظام قائم کی جائے ۔اس ریاست کا سربراہ اجتماعی طور پر ظلم کو ختم کرنے کے لیے قتال کا حکم دے سکتا ہے ۔کسی بھی ریاست یا نظام کے لیے کس طرح سے تیاری کرنی ہے اور کیا طریقہ کار اختیار کرنا ہے اس کے لیے ہمارے پاس اللہ کے محبوب نبی صلی اللہ علیہ والہ وسلم کی حیات مبارکہ اور ان کا طریقہ کار ہے کہ کس طرح انھوں نے ایک ایک شخص کی تربیت کی ،عدم تشدد کی حکمت عملی اختیار کی ، تربیت کا اس قدر اعلی طریقہ کار اختیار کیا کہ تیرہ برسوں میں اگر 83 یا 84لوگ اس کی جماعت میں شامل ہوئے تو تمام لوگ پوری پوری ریاست کا انتظام سنبھالنے کے اہل ہوئے اور اور جب ان کو دیگر انسانوں کی زمہ داریاں ملی تو لاکھوں مربع میل میں رہنے والا کوئی انسان رات کو بھوکا نہ سوتا ۔ہمارے لیے نبی کریم صلی اللہ علیہ والہ وسلم کی تمام زندگی میں ایک مکمل رہنمائی ہے اگر ہم اس پر عمل کریں تو بہت آسانی سے اسلام کے معیار پر قائم ریاست اور نظام قائم کرسکتے ہیں

(راجہ افضال سلیم میڈیا زون کے مری سے بیوروچیف ہیں .صحافت میں‌ وسیع تجربہ رکھتے ہیں‌،مختلف اخبارات اور چینلزمیں‌کام کرچکے ہیں‌.کالم نگار اور بلاگر بھی ہیں‌)

LEAVE A REPLY

Please enter your comment!
Please enter your name here